جاوید نامہ” میں علامہ اقبال نے عقل و عشق، مشرق و مغرب، اور انسان و خدا کے تعلق کو تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ اقبال، اپنے مرشد مولانا رومی کی رہنمائی میں، آسمانی سفر کے دوران کرۂ زہرہ (Venus) پر پہنچتے ہیں، جہاں وہ مغربی فلسفی فریڈرک نطشے (Nietzsche) کی روح سے ملتے ہیں۔ نطشے کو وہ ایک شکستہ، مضطرب اور تڑپتی ہوئی روح کے طور پر دیکھتے ہیں، جو کہتا ہے کہ اس نے انسان کو مذہب کی غلامی سے آزاد کر دیا، مگر خود روح کی غلامی سے آزاد نہ ہو سکا۔ [در این منزل نطشه را دیدم خراب – زِ دردِ خویش چون موجِ شراب
“میں نے نطشے کو دیکھا، وہ ٹوٹا ہوا اور بےقرار تھا،اپنے ہی درد میں شراب کی موج کی مانند مچل رہا تھا”] – یہ شعر نطشے کی روحانی بےچینی اور مغربی انسان کی خالی عقل کا نقشہ کھینچتا ہے۔ وہ خدا کی تلاش میں بغاوت کرتا ہے مگر عشق سے ناواقف رہتا ہے۔ اقبال اس سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے کیوں کہا کہ “خدا مر چکا ہے”؟ نطشے جواب دیتا ہے: [گفتمش از مرگِ حق گفتی، چرا؟گفت: او مرده است در دلهای ما “میں نے پوچھا: تُو نے خدا کی موت کیوں کہی؟اس نے کہا: وہ ہمارے دلوں میں مر چکا ہے”] یہ اقرار دراصل مغرب کی روحانی ویرانی کا نوحہ ہے۔ نطشے اس دنیا میں ایمان کی موت دیکھ چکا تھا، مگر ایمان کی جگہ کوئی نیا نور نہ پا سکا۔ اسی لمحے مولانا رومی جلوہ گر ہوتے ہیں اور وہ عشق و معرفت کی زبان میں نطشے کو سمجھاتے ہیں کہ خدا کبھی نہیں مرتا، انسان کے اندر کے چراغ بجھ جائیں تو روشنی مفقود ہو جاتی ہے، مگر عشق اس روشنی کو دوبارہ جلا سکتا ہے۔ [گفت رومی: ای پسر، آن کس که مرد – در دلِ تو زنده گردد گر بگرد! “رومی نے کہا: اے بیٹے! وہ (خدا) نہیں مرا ، اگر تیرا دل زندہ ہو جائے تو وہ پھر زندہ ہو جائے گا] یہ عشق کا جواب ہے، عقل کی بغاوت کا مداوا۔ رومی بتاتے ہیں کہ خدا دل میں رہتا ہے، دلیل میں نہیں , جب دل عشق سے زندہ ہوتا ہے، تو الوہی حقیقت خود ظاہر ہوتی ہے۔ رومی مزید فرماتے ہیں: [ زنده است آن کس که با عشق است جفت- مرده آن کو از محبت شد شگفت “وہی زندہ ہے جو عشق سے وابستہ ہے، اور جو محبت سے خالی ہے، وہ مردہ ہے] یہ شعر نطشے کے “خدا کی موت” کے فلسفے کا جواب ہے۔
رومی کہتے ہیں کہ خدا کے وجود کا ثبوت فلسفے میں نہیں بلکہ عشق کی کیفیت میں ہے۔ جس کے اندر محبت نہیں، وہ گویا مردہ ہے۔ اس موقع پر اقبال اپنے مخصوص لہجے میں عقل و عشق کے توازن کا فلسفہ بیان کرتے ہیں: [آدمی را زندگانی در طلب – خودی را زندگی در انقلاب “انسان کی زندگی طلب میں ہے، اور خودی کی زندگی انقلاب میں] یہاں اقبال نطشے کی جستجو کو رومی کے عشق سے جوڑ دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک زندگی کی اصل روح حرکت، تغیر، اور عشقِ الٰہی میں ہے۔ جس انسان کی خودی زندہ ہو، وہ موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ [مرگِ او زادنِ دیگر زِ خود است – زندگیش آتش اندر تار و پود است ” اس کی موت دراصل خودی کی نئی پیدائش ہے، اس کی زندگی اس کے تار و پود میں آگ کی طرح دوڑتی ہے۔ یہ شعر اقبال کے انسانِ کامل کے تصور کا نچوڑ ہے۔
نطشے کا “Übermensch” عقل و قوت کا پیکر تھا، جبکہ اقبال کا “انسانِ کامل” عشق و خودی کا نور بن جاتا ہے اور وہ فنا میں بقا پاتا ہے، اور اپنی روحانی آگ سے دنیا کو منور کرتا ہے۔ آخرکار اقبال کا پیغام یہ ہے: نطشے نے عقل کی تلوار سے خدا کو قتل کیا، رومی نے عشق کے نور سے اسے دوبارہ زندہ کیا اور اقبال نے دونوں کو ملا کر ایک نئے انسان کا تصور پیش کیا ، ایک ایسا انسان جو عقل سے باخبر، عشق سے منور، اور خودی سے بلند ہو۔
الطاف چودھری
04.10.2025