آزمائشیں: صبر، ایمان اور کامیابی کا راستہ
اللہ سبحان و تعالی نے دنیا کو آزمائش کی جگہ بنایا ہے۔ یہاں خوشی اور غم، آسانی اور مشکل، دونوں ہی ایمان کو پرکھنے کا ذریعہ ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْـرَكُـوٓا اَنْ يَّقُوْلُوٓا اٰمَنَّا وَهُـمْ لَا يُفْتَنُـوْنَ – “کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟” (سورۃ العنکبوت: 2) – اس آیت مبارکہ میں صاف بتا دیا گیا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنا کافی نہیں، بلکہ انسان کو عملی طور پر آزمایا جاتا ہے تاکہ اس کے ایمان کی سچائی ظاہر ہو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: „سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء پر آتی ہے، پھر ان کے بعد سب سے بہتر لوگوں پر، پھر ان سے بہتر پر۔ انسان کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہے تو آزمائش بھی سخت ہوتی ہے، اور اگر اس کے دین میں نرمی ہے تو اس کے مطابق آزمائش دی جاتی ہے۔” (جامع ترمذی) یہ حدیث مبارکہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزمائش اللہ تعالی کی ناراضگی نہیں بلکہ اللہ تعالی کی محبت اور توجہ کی علامت بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کو پاک اور مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالی نے مزید فرمایا: يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُـوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ “بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” (سورۃ البقرہ: 153) یہ آیت مبارکہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اگر ہم مشکلات میں صبر کریں گے تو اللہ تعالی کی معیت اور مدد ہمارے ساتھ ہوگی۔ لہٰذا آزمائش کے وقت گھبرانے یا ناامید ہونے کے بجائے، صبر اور دعا کو مضبوطی سے تھامیں۔ وقتی سکون یا آسانی پر راضی ہونے کے بجائے، ہمیں اپنی نظر آخرت کی کامیابی پر رکھنی چاہیے، کیونکہ یہی اصل اور دائمی کامیابی ہے-
الطاف چودھری
26.09.2025
