اسلامی نقطۂ نظر سے انسانی معاشرہ اور رویّے کی اصل بنیاد محض جذبات یا غیر منطقی عادات نہیں بلکہ وحی الٰہی اور اللہ سبحان و تعالی کی ہدایت ہے۔ قرآن مجید میں بارہا یہ بات واضح کی گئی ہے کہ انسان خواہشات کی پیروی کرے تو گمراہ ہو جاتا ہے: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ ” کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو ہی معبود بنا لیا؟ ” (سورہ الجاثیہ آیت نمبر 23) اس کے برعکس ایک مومن کا طرزِ عمل عقل و جذبات پر نہیں بلکہ وحی اور شریعت پر استوار ہوتا ہے: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ” جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو مومن مرد و عورت کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار نہیں رہتا” (سورہ الأحزاب آیت نمبر 36) – نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: إنما الأعمال بالنيات ” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے” (بخاری و مسلم) – اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام میں انسانی عمل کا اصل محرک اللہ رب العزت کی رضا اور نیک نیت ہونا چاہیے، نہ کہ صرف جبلّتیں یا جذبات۔ اسی طرح قیادت اور ایلیٹ کی گردش کے بارے میں بھی اسلام نے اصول دیا ہے کہ قیادت امانت ہے اور یہ اہل تقویٰ اور دیانت دار لوگوں کو ملنی چاہیے، جیسا کہ حدیث میں ہے: إذا وُسِّد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة “جب معاملات نااہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو (بخاری) – لہٰذا اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرتی توازن اور تبدیلی کا اصل معیار ایمان، تقویٰ، عدل اور شریعت کی پیروی ہے، نہ کہ صرف طاقت یا چالاکی-

الطاف چودھری
18.09.2025

By admin

x  Powerful Protection for WordPress, from Shield Security
This Site Is Protected By
Shield Security