انسانی فطرت ہے کہ ہم اکثر دوسروں کے بارے میں جلدبازی سے رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی کم بولتا ہو یا زیادہ تر خاموش رہتا ہو تو ہم فوراً یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ مغرور، لاپروا یا بدتمیز ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے دل کے دکھ، تکلیف یا کسی آزمائش کو چھپائے ہوئے ہو اور اس پر بات کرنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دیتا ہو۔اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں بدگمانی سے بچیں اور حسنِ ظن رکھیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ” اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں” (سورہ الحجرات آیت نمبر 12)۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ “بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے” (صحیح بخاری، حدیث: 6064، صحیح مسلم، حدیث: 2563)- لہٰذا ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ نرمی، ہمدردی اور خیرخواہی کا برتاؤ کریں، جیسا سلوک ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ کسی کے دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے، اس لیے ہمیں ظاہری رویوں کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنے دل میں خیر کا پہلو رکھنا چاہیے۔
الطاف چودھری
16.09.2025