
برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت معاشی عدم استحکام کا شکار ہے-ملک کے سیاسی عدم استحکام، اندرونِ ملک سکیورٹی خدشات اور ناقص معاشی پالیسیوں میں خرابیوں کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کو خدشات ہیں اسلئے وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے گھبرا رہے ہیں – رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022-23ء میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو کا جو اندازہ 1.5 فیصد لگایا تھا وہ اب گھٹ کر صرف 0.2 فیصد رہ جائے گی – اس بدحالی کی وجوہات بے شمار ہیں جن میں سیلاب، غربت کے اثرات سے عوام کے اخراجات میں کمی، عالمی معاشی مسائل اور خوفناک حد تک شرح سود کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری بہت کم ہو جائے گی- البتہ 2023ء سے 2027ء کے عرصے میں اس کی پیش گوئی ہے کہ پاکستان کی شرح نمو 2.8 فیصد تک ہو جائے گی- 2023ء کے اکتوبر تک شرح سود 23 فیصد تک جائے گی تاکہ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد ہو سکے اور ملک میں افراطِ زر سے مقابلہ بھی کیا جا سکے- معاشی ترقی کی رفتار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2024ء کے جون تک شرح سود میں کسی قسم کی کمی ممکن نہیں ہو سکے گی-رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان جولائی 2023ء سے شروع ہونے والے معاشی سال میں ڈیفالٹ کر جائے گا، کیونکہ اس کے پاس قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لئے زرِمبادلہ موجود نہیں ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام بھی اکتوبر میں ختم ہو جائے گا تو ایسے پاکستان قسطوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض حاصل نہیں کر پائے گا- پاکستان میں افراطِ زر اب 30 فیصد سے بھی زیادہ ہو جائے گا- پاکستان کی کرنسی کی قیمت مسلسل گرتی رہے گی جو اس سال بھی ڈالر کے مقابلے میں 278.3 کی اوسط کے اردگرد گھومتی رہے گی۔ پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ میں خسارے کی شرح کو 3.2 فیصد سے 2.9 فیصد تک کم کر رہے ہیں- اس کی وجہ کوئی معاشی استحکام نہیں ہے بلکہ پاکستان کے پاس بیرون ملک سے ضروری اشیاء منگوانے کے لئے بھی زرِمبادلہ نہیں ہے-رپورٹ کے مطابق پاکستان روس اور چین سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے کے لئے مغربی دنیا سے اپنے تعلقات کی قربانی دے گا- بھارت سے اس کے تعلقات کشیدہ رہیں گے اور پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا- Copied/RR
الطاف چودھری
23.11.2023