معاشی زبوں حالی اور ریاست کا کردار
“پاکستان کی اشرافیہ جس میں رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون، جاگیردار ، بیوروکریٹس، سجادہ نشین، قبائلی سرداراور سٹاک ایکسچینج کے سیٹھ شامل ہیں، ان تک یا تو ریاست کی پہنچ نہیں ہے یا ریاست ان سے ملی ہوئی ہے۔سابق چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی نے جب رئیل اسٹیٹ اور تاجرطبقے پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ڈی ایچ ایز میںکاروبار ٹھپ ہو گیا ہے اورانکی آہ و بکا سن کر عمران خان اور جنرل باجوہ نے شبر زیدی کو ان مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگانے سے منع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح نو فیصد کے قریب ہے اور ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تقریباً اٹھارہ فیصد ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر ایسے برے حالات آئے تو پوری قوم نے مل کر اپنی قربانیوں کے ذریعے ان سے نجات حاصل کی اور سماج کے خوشحال طبقوں اور اداروں نے اپنی مراعات کی قربانی دی۔ اس لیے آج اشد ضرورت ہے کہ تمام غیر پیداواری اخراجات کو ختم کیا جائے، گورنمنٹ ملازمین، ججوں،اور عسکری اداروں کے بجلی، پٹرول، گیس، سرکاری گاڑیوں اور دیگر مراعات کو فوری طور پرختم کیا جائے ۔کئی بلین ڈالرز کی درآمدات جس میں بلیوں اور کتوں کی خوراک، شیمپو، پرفیوم، جوتے اور ایسی غیر ضروری اشیائے تعیش جو صرف اشرافیہ کی ضرورت ہیں، کو ختم کیا جائے۔ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی کنٹونمنٹس کا خاتمہ کیا جائے ۔ جائیدادوں پر دوسرے ممالک کی طرح مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پر ٹیکس نافذ کیا جائے۔ایران،افغانستان اور ہندوستان سے تعلقات کو خوشگوار بنا کر عسکری بجٹ میں کمی کی جائے۔فوری طور پر آئین کے مطابق نوے دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں ۔ آج پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور ذی شعور دانشور آئین کی پاسداری کو پاکستان کی بقا سے جوڑتے ہیں۔پاکستان کی معاشی اور سیاسی ابتری کی جڑیں بہت گہری ہیں اور مرہم پٹیوں کے ذریعے ان امراض کا علاج ممکن نہیں۔ اس لیے جب تک پاکستان کو مراعات یافتہ طبقات اور مافیاز کے چنگل سے آزاد کراکےعوامی فلاحی ریاست کا قیام ظہور پذیر نہیں ہوتا، اس وقت تک نناوے فیصد عوام کی معاشی زبوں حالی کے رجحان کو روکنےکا کوئی امکان موجود نہیں۔”
Copied….