ریاست مدینہ کا تصور

صالح معاشرے کا قیام اسلام کی بنیادی ترجیحات ہیں – آپ نبی آخرالزمان ﷺ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما – ریاست مدینہ ایک دینی حکومت تھی اور اس کا مقصد دعوت دین، اصلاح اخلاق اور تزکیہ نفس تھا – اللہ تعالی نے اپنی مقدس کتاب قرآن پاک میں اسلامی ریاست کا مقصد متعین کر دیا ہے اور فرمایا ہے ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے۔‘‘ (الحج: ۴۱) یہی آیت مبارکہ ریاست مدینہ حکومت کے طریق کار کو متعین کرتی ہے اور اس حکومت کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود ہوتا ہے – اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم ہوتی ہے – اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکم رانوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے – ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور انھیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے- پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو چند لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے- یہ سب بے حس مکار شاطر اور چالاک اور غاصب ہیں- ان چوروں بدمعاشوں رسہ گیروں کا ایکا ہے اور انہوں نے عوام کو جان بوجھ کر ان پڑھ اور بے شعور رکھا ہوا ہے کیونکہ اگر عوام میں شعور آ جاۓ تو ان کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہو جاۓ گا- کوئی جنگ ہارنا یا کسی اقتصادی بحران میں جکڑا جانا کسی قوم کی شکست و ریخت کا سبب تو ہو سکتا ہے مگر اسکی تباہی کا سبب معاشرے کی انحطاطی ہوتا ہے-اگر کوئی معاشرہ انحطاط کا شکار ہوجاۓ تو وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے-حضرت رسول اکرم نبی آخرالزمان کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ تم سے پہلی قومیں اس لۓ تباہ ہو گئیں کہ وہ وہاں امیر اور غریب کے لۓ الگ الگ قانون نافذ تھے- یعنی امیر کے لۓ اور قانون غریب کے لۓ اور قانون – جس معاشرے میں انصاف مٹ جاۓ وہ بلآخر مٹ جاتا ہے-حضرت علی کا قول ہے کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا- قوم لوط کو اللہ نے اسکی اخلاقی برائی کی وجہ سے الٹ دیا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی- عاد و ثمود کا ذکر بھی تاریخ میں ہیں خدا نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا- حضرت شعیب کی قوم ناپ تول میں ہیرہ پھیری کرتی تھی اور اللہ نے اسے معتوب کیا-آج بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ کچھ ایسی ہی تصویر پیش کر رہا ہے- ملک میں افراء تفری ہے اور دہشت گردی ہے بم دھماکے ہیں اور بوری بند لاشیں ہیں-بھتہ خوری ہے کھلی کرپشن ہے ملک میں نا کوئی لا اینڈ آرڈر ہے اور نا کوئی قائدہ قانوں ہے- دھونس ہےغنڈہ گردی ہے بھتہ خوری ہے بے حیائی اور بے غیرتی ہے اور اخلاقی قدروں کی پائمالی ہے- اگر کوئی حکمران اپنی ریاست کو ریاست مدینہ کی بنیادوں پر استوار کرنا چاہتا ہے تو اسے فی الفور اپنی ریاست میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا رواج کرنا ہو گا- ایک مسلمان نیکی کا حکم دینا ہے اور برائی سے روکتا ہے- ایک اسلامی معاشرہ میں برائی کو روکنا ہر مسلمان کا فرض ہے- فرمایا گیا کہ’’تم میں سے کوئی منکر ( برائی) کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے- اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے-اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔‘‘مسلمان اُمت مسلمہ میں حق و خیر کا محافظ اور نگران ہے- مسلم معاشرے میں برائی صرف اِسی صورت میں ہوتی ہے، جب معاشرہ غفلت کا شکار ہوجائے یا ضعف اور انتشار سے دوچار ہو جائے- ایسی صورتِ حال میں یہ معاشرہ نہ قائم رہ سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی خیال نہیں کر سکتااور اپنے ان دگرگوں حالات کی بنا پر کسی قانون کے نفاذ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا- بدقسمتی سے ہمارے حکمران دین کو ہمیشہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کرتے ہیں – اسلامی تعلیمات سے انحراف اور اسلامی شعائر کی تضحیک کرنا اور ریاست مدینہ کے تصور کی باتیں کرنا فریب ہے-اپنی زندگیاں اسلامی شعائر کے مطابق ڈھالنا ، حلال حرام میں تمیز کرنا ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ریاست مدینہ کی اساس ہے-بسم اللہ کرو- اللہ اور اس کا محبوب ﷺ آپ سے راضی ہو گا-مگر یاد رکھو اللہ مکر و فریب کو پسند نہیں فرماتا اور اللہ سے مکرکرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے-

الطاف چودھری
19.08.2018

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

x  Powerful Protection for WordPress, from Shield Security
This Site Is Protected By
Shield Security