عمران خان کی سرکار
عمران خان کی سرکار تو خاکی سرکار کی ہے-اس کے بس بڑے بڑے دعوی ہیں اور شیخ چلیوں جیسی سکیمیں ہیں – پچھلے پانچ سال میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں جسطرح ایک ارب درخت لگے ہیں اور تین سو ڈیم بنے ہیں اور پشاورکی سڑکوں پر ریپڈ بس سروس فرارے بھرتی نظر آ رہی ہے بالکل اسی طرح اگلے سو دنوں میں ملک عزیز پاکستان میں نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں اور غریبوں کو پچاس لاکھ نئے مکان کر دان کئے جائینگے-اگر آپ کو شک ہے یا خان صاحب اور اس کے نو رتنوں کی دانشوری کی دانش پر کوئی شبہ ہے تو آپ آنے والے دنوں میں ملکی اور غیر ملکی تنظیموں کے سروے رپورٹ ضرور پڑھ لیں – عمران خان بضد ہیں کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہینگے- ان کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ یہ اسلام آباد میں ایک دو کمرے کے فلیٹ میں رہنا پسند فرمائینگے – چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤسز کو یہ پہلے ہی دن بلڈوز کروا دینا چاہتے ہیں – انھیں چاہیں کہ یہ گورنروں اور دوسرے امیروں وزیروں کو بھی بڑے بڑے سو سو دو دو سو کنال کے محلات کی بجائے ایک ایک یا دو دو کمرے کے فلیٹ میں رہنے کا حکم صادر فرمائیں – اس سے قوم میں سادگی اور کفایت شعاری کا رجحان پروان چڑھے گا اور بچت بھی ہو گی- مگر بدقسمتی سے حقیقت ہے کہ عمران خان فرنگیوں کا ٹوڈی ہے اور پاکستان میں یہ صیہونی اور ہنودی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے-کراچی میں یہ متحدہ کے الطاف حسین کا جانشین ہے- یہی وجہ ہے کہ اسے کراچی سے جتوایا گیا ہے-کراچی کی کچرا کنڈیوں سے لاکھوں بیلٹ پیپر ملے ہیں جن پر پی پی پی کی اور متحدہ کی مہریں لگی ہوئی ہیں اور جنہیں جلانے کی کوششں کی گئی تھی – عمران خان اور الطاف پچھلے بیس بایئس سال سے ایک دوسرے پر لعنت ملامت کرتے رہے ہیں اور یہ ایک دوسرے کو راء کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں – اب یہ دونوں گلے مل رہے ہیں اور جنم جنم تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کی دوھایاں دے رہے ہیں – کیونکہ یہ دونوں ہی ہنود یہود کے ایجنٹ ہیں اور اب ان کی اصلیت ظاہر ہو گئی ہے اور یہ دونوں جلد ہی اپنے انجام کو پہنچیں گے- اب جب چند دنوں بعد عمران خان وزیر اعظم کا حلف اٹھا لینگے تو سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر پاکستان کی ناخوشگوار سیاسی تاریخ اپنے آپ کو دہرا ئے گی – قومی اسمبلی کی ایک دو نشستوں سے اکثریتی پارٹی بننے کا انکا سفر بہت سے سمجھوتوں، مصلحتوں، پسِ پردہ ڈیلوں سے بھرا ہوا ہے-انکا مینڈیٹ خالص نہیں ہے اور یہ مینڈیٹ انہیں عوام نے نہیں بلکہ کسی اور نے دیا ہے لیکن وزیر اعظم منتخب ہونے اور اس عہدے کا پروٹوکول اور اختیارات کا تجربہ کرنے کے بعد شاید وہ اپنے ادراک کو اتنا حقیقت پسندانہ نہ رکھ سکیں اور وہ خود کو سچ مچ کا وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دیں-جمہوریت کیلئے تو انکا یہ اقدام بہتر ہو گا لیکن انکی ذات کو اسکی قیمت چکانا پڑے گی – جب انکے سامنے مطالبات کی ایک لمبی فہرست رکھی جائے گی اور ان سے توقع کی جائے گی کہ وہ چپ چاپ ان پر عمل فرماتے جائیں تو مسائل شروع ہونگے- اور پھر انہیں مکافاتِ عمل کے قانونِ قدرت کا بھی سامنا ہوگا، جو کچھ نواز شریف نے بینظیر کے ساتھ کیا وہ انہوں نے پالیا- اور جو کچھ عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ کیا ہے اس کا قرض اسے آج یا کل چکانا پڑے گا – یاد رکھو قانونِ قدرت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں- جیل میں محصور نواز شریف اور مریم نواز کا فیکٹر آئندہ سیاست میں کیا کردار ادا کرتا ہے اسکے بھی پی ٹی آئی کی حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہونگے- اگر شہباز شریف کسی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مک مکا کرکے اپنے خاندان کے لئے کوئی مراعات لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ادھر آصف علی زرداری اپنی مفاہتی پالیسی برقرار رکھتے ہیں تو پنجاب تو کیا وفاق میں بھی جب نادیدہ قوتیں چاھیں گی عمران خان حکومت کا بستر بوریا لپیٹ دینگی-اور عمران خان پھرلندن کی سڑکیں ناپتے نظر آئیں گے – اور اس وقت ان کے ارد گرد ابن الوقت گھوم رہے ہیں وہ انھیں گھاس بھی نہیں ڈالیں گے- اللہ انسانوں کو عزت دے کر آزماتا ہے -لیکن عزت ہر کسی کو راس نہیں آتی اور انسان میں رعونیت بھر جاتی ہے اور وہ فرعون اور نمرود بن کر خدائی کا دعویدار بن جاتا ہے-اللہ کو فرعونیت اور رعونیت پسند نہیں ہے-اس لئے انسان کو چاہے کہ خدا مت بنے انسان ہی رہے-
الطاف چودھری
13.08.2018