کلام اقبال میں مرد مومن کا تصور
علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں انسانِ کامل کو مختلف ناموں سے مخاطب کیا ہے مثلاً مومن، مردِ مومن، بندۂ مومن، مردِ حق، مردِ کامل، مردِ دانا، مردِ حرُ، امامِ برحق، قلندر، صاحبِ ایجاد، مردِ خود آگاہ، دیدہ ور، صاحبِ ادراک، امامِ وقت، مردِ فقیر، بندۂ حق، بندۂ حق بین، مردِ بزرگ، مردِ قلندر، صاحبِ دِل، صاحب امروز اور مہدی برحق۔
ان تمام اصطلاحی ناموں سے مراد ’انسانِ کامل‘ ہی ہے
لیکن شاعری کے اصولوں کی ضرورتوں کے مطابق آپؒ نے دیگر عارفین کی طرح ’انسانِ کامل‘ کو مختلف ناموں سے موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اقبالؒ انسانِ کامل کے بارے میں کیا لکھتے ہیں، یہ سمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ ’’انسانِ کامل یا مردِ مومن ‘‘ کے مرتبہ پر روشنی ڈالی جائے۔
فقرائے کاملین اور انسانِ کامل
راہِ فقر میں اپنی ہستی کو اللہ کی ذات میں فنا کر کے بقا باللہ ہو جانا عارفین کا سب سے اعلیٰ اور آخری مقام ہے۔ یہاں پر وہ دوئی کی منزل سے بھی گزر جاتے ہیں۔ حدیثِ نبویؐ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (مرنے سے پہلے مر جاؤ) میں اسی مقام کی طرف اشارہ ہے۔ فقر کے اس انتہائی مرتبہ کو مقامِ فنا فی ھوُ، وحدت، فقر فنا فی اللہ بقاباللہ یا وصالِ الٰہی کہتے ہیں اور یہ مقامِ توحید بھی ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان سراپا توحید ہو جاتا ہے۔ انسانی عروج کا یہ اعلیٰ ترین مقام ہے۔ عام اصطلاح میں اس مقام تک پہنچنے والے انسان کو ’’انسانِ کامل‘‘ یا ’’فقیرِ کامل‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن فقرا اور عارفین نے اپنی تصنیفات میں اس مقام کو مختلف ناموں سے موسوم کیا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
علامہ اقبال کے ہاں انسان کامل کے حوالے سے جابجا اشارے ملتے ہیں۔ اسلام نے انسانی کمال اور فضیلت کو تسلیم کیا۔ اور اس کی ذات کو تخلیق اقدار کا سر چشمہ ٹھہرایا۔ چونکہ انسان کائنات ہستی کا بلند ترین نمونہ ہے اس لیے اسے زمین پر نیابت الٰہی کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اقبال کا مرد مومن کا تصور بھی اسی اسلامی تصور پر مبنی ہے۔ انسان خود ایک عالم ہے۔ اور ذات مطلق اور کائنات فطرت کے درمیان اتصالی کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق میں یہ صفت موجود نہیں ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کامل کا اعلیٰ ترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک انسان کے لیے مشعل ہدایت ہے۔
جس کی روشنی میں چل کر وہ حیات کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔ انسان کامل اور مرد مومن کی زندگی جو آئین الٰہی کے مطابق ہوتی ہے تو اشیا کا راز اس پر منکشف ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ اور اس کا کلام خدا کا کلام بن جاتا ہے۔
اس خیال کو اقبال نے ”بال جبرئیل“ میں یوں پیش کیا ہے :۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اسی خیال کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں :۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبال کا مرد مومن اپنی فطرت کے اعتبار سے رجائی اور جفاکش ہے۔ عاشق رسول ہے اور تسخیر فطرت کا قائل ہے۔ زندگی کی تمام فرسودہ قدروں کا انہدام اس کے لیے ضروری ہے تاکہ حیات نو کی تعمیر کی جا سکے۔
اسے اپنی ذات اور کائنات کا بھر پور احساس ہے۔ وہ پہلے اپنے آپ کو پہچانتا ہے پھر ساری دنیا سے متعارف ہوتا ہے۔ وہ صرف اپنے حقیقی آقا کے سامنے جھکتا ہے۔ وہ اپنی آرزوؤں کی آگ میں جلتا ہے اور باطل کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ وہ خواہشات سے دور رہتا ہے اس لیے فقر کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔
اقبال کا مرد مومن ایک مرد بے نیاز ہے اس لیے زمین پرست یا زن پرست نہیں ہے۔ اپنی شان قلندری کی وجہ سے وہ غالب ہے۔ محکوم اور بے عمل نہیں ہے۔
اقبال کا انسان کامل سخت کوشی اور مقاصد آفرینی سے اپنی خودی کو مکمل کرتا ہے۔ اور اس طرح عناصر فطرت پر قابو حاصل کرتا ہے۔
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق تو بھی ادھر جا
ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بہ نگاہ قلندر سے گزر جا
میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو، تو اتر جا
قلندر کی پہچان
اقبال کا مرد مومن اسلامی تصور حیات سے وابستہ ہے۔ وہ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بہت بلند ہے۔ اور اللہ کا بندہ ہے۔ بقول اقبال:۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اقبالؒ کے نزدیک انسانِ کامل یا مردِ مومن کا کیا مرتبہ و مقام تھا۔
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
’حق‘ تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا ’امامِ برحق‘
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر ’رخِ دوست‘
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
ضربِ کلیم
