فریڈرک نطشے کے نزدیک مساوات دراصل غلامانہ اخلاقیات (Slave Morality) ہے جو کمزور طبقات کی اختراع ہے تاکہ وہ طاقتور اور باصلاحیت افراد کو اپنے برابر لا کھڑا کریں۔ اس کے خیال میں تہذیب اور ثقافت کی عظمت ہمیشہ نابرابری اور درجہ بندی پر قائم رہتی ہے اور مساوات اوسط پن (Mediocrity) کو فروغ دے کر معاشرے کی تخلیقی اور فکری قوت کو کمزور کرتی ہے، اسی لیے وہ مساوات کو انسانی عظمت اور تہذیب کے زوال کا باعث سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام مساوات کو انسانی کرامت اور عدل کی اصل بنیاد قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: “وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ” ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ” (سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 70)- یہ اس بات کا اعلان ہے کہ تمام انسان بنیادی طور پر عزت و کرامت میں برابر ہیں۔ اسی اصول کو نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا: “کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے” (مسند احمد، حدیث: 23489)۔ قرآن بھی یہی اصول بیان کرتا ہے: “إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ” اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 13) یوں اسلام مراتب اور فرق کو تسلیم کرتا ہے لیکن یہ فرق طاقت، نسب یا دولت پر نہیں بلکہ اخلاق، کردار اور تقویٰ پر مبنی ہے۔ غلامی کے مسئلے میں بھی اسلام نے ایک تدریجی حکمتِ عملی اپنائی تاکہ انسانی معاشرہ مساوات اور آزادی کی بنیاد پر استوار ہو؛ قرآن میں غلام آزاد کرنے کو نیکی اور کفارات کا حصہ قرار دیا گیا (سورہ النساء آیت نمبر 92، سورہ المجادلہ آیت نمبر 3) اور نبی اکرم ﷺ نے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور برابری کے ساتھ کھلانے پلانے کا حکم دیا (صحیح بخاری، حدیث: 30)۔ اس طرح اسلام مساوات کو محض نظریہ نہیں بلکہ ایک عملی اصول کے طور پر معاشرت میں نافذ کرتا ہے۔ نتیجتاً نطشے مساوات کو تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتا ہے جبکہ اسلام مساوات کو انسانی کرامت، عدل اور اخلاقی برتری کی اصل بنیاد قرار دیتا ہے، اور یوں دونوں کے درمیان مماثلت صرف اس حد تک ہے کہ وہ انسانی فرق کو مانتے ہیں مگر معیارِ فضیلت میں بنیادی اختلاف رکھتے ہیں-
الطاف چودھری
28.09.2025