غربت اور امارت دونوں اپنی اپنی انتہاؤں پر فساد کا سبب بنتی ہیں؛ غربت انسان کو بھوک، محرومی اور مایوسی کے باعث جھوٹ، چوری اور بغاوت جیسے رویوں کی طرف دھکیل دیتی ہے، جبکہ امارت انسان میں غرور، لالچ اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کا رویہ پیدا کرتی ہے، یوں ایک طرف مجبوری اور دوسری طرف تکبر معاشرتی بگاڑ کو جنم دیتا ہے، اصل سکون اور حسن اعتدال، قناعت اور شکرگزاری میں ہے جہاں نہ بھوک انسان کی عزتِ نفس کو مجروح کرے اور نہ دولت غرور میں اندھا بنائے- یونانی، اسلامی اور مشرقی مفکرین کے نزدیک بھی غربت اور امارت دونوں اپنی انتہاؤں پر فساد کا باعث بنتی ہیں۔ افلاطون اور ارسطو نے اعتدال کو انسانی زندگی کی اصل خوبی قرار دیا، وہ کہتے ہیں کہ انسان کو نہ فاقہ کش ہونا چاہیے اور نہ ہی عیش پرستی میں غرق، بلکہ ایسا توازن اختیار کرنا چاہیے جو عقل و کردار کو نکھارے۔ صوفیاء اور مسلم فلاسفہ مثلاً امام غزالی رَحْمَةُ اللَّٰهِ عَلَيْهِ کے نزدیک غربت جب حد سے بڑھ جائے تو انسان کو مایوسی اور اخلاقی کمزوری کی طرف لے جاتی ہے، جبکہ بے حساب دولت غرور، لالچ اور استحصال پیدا کرتی ہے۔ مشرقی مفکرین جیسے کنفیوشس نے بھی میانہ روی اور قناعت کو معاشرتی امن اور اخلاقی حسن کی بنیاد قرار دیا۔ یوں بڑے بڑے فلسفی اس بات پر متفق ہیں کہ اصل سکون اور کامیابی اسی اعتدال میں ہے جہاں انسان بھوک اور غرور دونوں کے فساد سے محفوظ رہتا ہے-
الطاف چودھری
11.09.2025