علامہ اقبال کا انقلاب آفریں خطبۂ الہ آباد
„علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں مسلمانوں کی
سب سے بڑی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک عظیم الشان مسلم ریاست کے قیام کا بہت واضح نقشہ پیش کیا جس پر قائدِاعظم کی زیرِقیادت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تعمیر ہوئی۔ یوں اِس تاریخ ساز معرکے میں علامہ محمد اقبال کا خطبہ الہ آباد نہایت اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے صدارتی خطبے کے آغاز ہی میں یہ واضح کر دیا تھا کہ اِس عظیم الشان اجتماع میں اُن حضرات کی کمی نہیں جن کا سیاسی تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔ مَیں کسی جماعت کا رہنما ہوں نہ پیروکار۔ مَیں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسلام کی تعلیمات اور اِسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور اَدبیات کے مطالعے میں صَرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اِس مستقل اور متواتر تعلق کی بدولت میرے اندر یہ جان لینے کی خاص بصیرت پیدا ہو گئی ہے کہ ایک عالمگیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی مشیّت کیا ہے۔ مَیں کوشش کروں گا کہ آپ کے فیصلوں میں رہنمائی کے بجائے اُس بصیرت کی روشنی میں آپ کے دل میں اُس بنیادی اصول کا احساس پیدا کروں جس پر میری رائے میں ہمارے تمام فیصلوں کا انحصار ہونا چاہیے۔ اِس اوّلین اصول کی وضاحت کے بعد اُنہوں نے دوسری ناقابلِ انکار حقیقت یہ بیان کی کہ ایک اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام کی حیثیت سے اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی ہے جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی ہے۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے اُن جذبات سے معمور ہوئے جن پر قوموں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے بکھرے ہوئے افراد بتدریج متحد ہو کر ایک متعین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر اُس قوم کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی ڈاکٹر محمد اقبال نے اِس تیسری عظیم حقیقت کا انکشاف بھی کیا کہ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہواہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی جماعتِ اسلامی کی ترکیب صرف اِسلام ہی کی رہینِ منت ہے، کیونکہ اسلام کے تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے داخلی اتحاد اَور اِن کی نمایاں یکسانیت اُن قوانین اور اِداروں کی شرمندۂ اِحسان ہے جو تہذیبِ اسلامی سےوابستہ ہیں۔ گاندھی جی اور اُن کے ہم نوا ایک مدت سے اِس کوشش میں غلطاں رہے کہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ سرے سے کوئی قوم ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کی اولادیں ہیں اور فطری طور پر اِنہی کا حصّہ ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں اِس گمراہ کن پروپیگنڈے کی مکمل نفی کرتے ہوئے یہ تیسری عظیم حقیقت پورے حقائق اور سیاسی دلائل کے ساتھ اجاگر کی کہ ہندوستان میں اگر کوئی قوم ہے، تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ ہندو ہر بات میں اگرچہ ہم سے آگے ہیں، لیکن ابھی اُنہیں وہ یک رنگی حاصل نہیں ہوئی جو ایک قوم بننے کے لیے لازمی شرط ہے۔ یہ نعمت اِسلام نے ہمیں تحفے کے طور پر عطا کی ہے۔ بےشک ہندو اِس بات کے لیے مضطرب ہیں کہ وہ کسی طور ایک قوم بن جائیں، مگر قوموں کی ترکیب گویا ایک نئی زندگی میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ جہاں تک ہندوؤں کا تعلق ہے، اُنہیں ایک قوم بننے کے لیے اپنا پورا نظامِ معاشرت بدلنا ہو گا۔یہ ثابت کرنے کے بعد کہ حقیقت میں صرف مسلمان ہی ’ایک قوم کہلانے کے مستحق ہیں‘ علامہ اقبال نے اپنی چوتھی منطقی حقیقت پر زور دِیا کہ اِس قوم کی اپنی ایک جداگانہ ریاست ہونی چاہیے، چنانچہ اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا کہ میری ذاتی طور پر خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان ایک ریاست میں مدغم کر دیے جائیں، خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومت خوداختیاری حاصل کرے یا اُس کے باہر۔ مجھے تو صاف نظر آتا ہے کہ شمال مغرب کے مسلمانوں کو بالآخر ایک بڑی منظم مسلم ریاست قائم کرنا ہو گی۔ ایک حقیقت پسند اور بالغ نظر سیاسی مفکر کی حیثیت سے علامہ اقبال نے پانچواں نکتہ یہ اٹھایا کہ انبالہ ڈویژن یا اِس قسم کے دوسرے اضلاع کو الگ کر دینے سے جن میں ہندو آبادی کا غلبہ ہے، اُس کی انتظامی مشکلات میں بڑی کمی واقع ہو گی۔ پھر اُن اضلاع کی علیحدگی سے غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق پہلے سے زیادہ محفوظ ہو جائیں گے۔ تقسیمِ ہند کی تجویز سے انگریزوں کو پریشان ہونا چاہیے نہ ہندوؤں کو۔ ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اِس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کی حیثیت سے زندہ رَہے، تو اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اِس زندہ اَور جاندار مرکزیت کی بدولت ہندوستان کا آئینی مسئلہ حل ہو جائے گا، مسلمانوں کے احساساتِ ذمےداری مزید قوی ہو جائیں گے اور اُن کا جذبۂ حب الوطنی بڑھ جائے گا۔ علامہ اقبال کے اِس ایمان افروز خطبے نے مسلمانوں کے اندر تازہ رُوح پھونک دی تھی-„
copied..