اسلام میں طرزِ حکومت کا بنیادی تصور اللہ سبحان و تعالی کی حاکمیت اور انسان کی خلافت پر قائم ہے، یعنی اصل حاکم اللہ تعالی ہے اور انسان زمین پر اس کا نائب ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں حکومت کے اہم اصول یہ ہیں کہ فیصلے صرف اللہ حاکم و الحکمین کے احکام کے مطابق ہوں، حکمرانی ایک امانت اور ذمہ داری ہے، اجتماعی معاملات مشاورت (شوریٰ) سے طے ہوں، عدل و انصاف قائم کیا جائے، اور حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ قرآن مسلمانوں کو اللہ، رسول ﷺ اور اہلِ امر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اسلامی علما کے نزدیک اسلام میں حکومت کی بنیاد اللہ تعالی کی حاکمیت اور انسان کی خلافت ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: “إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ “حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے قیام کا حکم دیا: إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ” یعنی اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو – (سورہ النساء آیت نبر 58) – رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا صحیح بخاری و مسلم)۔ اس حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ حکمران رعایا کا خادم اور جواب دہ ہے خلافتِ راشدہ اس نظام کی عملی مثال ہے، جہاں خلفاء کا انتخاب اہلِ رائے نے کیا، حکمران احتساب کے تحت تھے، عدل و مساوات قائم تھی اور بیت المال عوامی فلاح پر خرچ ہوتا تھا۔ اس طرح اسلام کا نظام حکومت نہ بادشاہت ہے نہ مغربی جمہوریت، بلکہ ایک ایسا خلافتی نظام ہے جو اللہ تعالی کی حاکمیت، عوامی مشاورت، عدل و انصاف اور شریعت کے نفاذ پر مبنی ہے، جس میں حکمران عوام کا خادم اور اللہ رب العزت کے احکام کا پابند ہوتا ہے-اسلامی مفکرین اور علما کے مطابق اسلام میں طرزِ حکومت کی بنیاد اللہ تعالی کی حاکمیت اور انسان کی خلافت پر ہے۔ امام ماوردی (وفات 450ھ) اپنی کتاب الاحکام السلطانیہ میں فرماتے ہیں:”الإمامة موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدين وسياسة الدنيا به” یعنی خلافت کا مقصد نبوت کی جانشینی ہے تاکہ دین کی حفاظت ہو اور دنیا کا نظام دین کے ذریعے چلایا جائے علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ شریعت کے نفاذ اور عدل و انصاف کو یقینی بنائے، کیونکہ عدل کے بغیر ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ امام ابن تیمیہ (وفات 728ھ) اپنی کتاب السیاست الشرعیة میں بیان کرتے ہیں: “يجب أن يُعلَم أن ولاية أمر الناس من أعظم واجبات الدين، بل لا قيام للدين إلا بها” یعنی یہ جاننا ضروری ہے کہ لوگوں کے معاملات کی ولایت دین کے سب سے بڑے واجبات میں سے ہے، بلکہ دین کا قیام ہی اس کے بغیر ممکن نہیں – امام غزالی فرماتے ہیں کہ حکمران عوام کا خادم ہے، اور اس کی ذمہ داری صرف نظم و نسق نہیں بلکہ عوام کے دینی اور دنیاوی حقوق کی حفاظت بھی ہے۔ امام غزالی (وفات 505ھ) احیاء علوم الدین میں حکمران کی ذمہ داری بیان کرتے ہیں: ” الدين أساس، والسلطان حارس، فما لا أساس له فمهدوم، وما لا حارس له فضائع” یعنی دین بنیاد ہے اور حکومت اس کی محافظ، جو دین کے بغیر ہے وہ برباد ہے اور جو حکومت کے بغیر ہے وہ ضائع ہے – شاہ ولی اللہ دہلوی نے زور دیا کہ حکمران کو شریعت کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں اور شوریٰ کو اختیار دینا چاہیے تاکہ اجتماعی معاملات عوامی مشاورت سے طے ہوں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات 1176ھ) اپنی کتاب حجة الله البالغة میں لکھتے ہیں: “الخلافة موضوعة لحمل الناس على مقتضى النظر الشرعي في مصالحهم الأخروية والدنيوية” یعنی خلافت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو دینی اور دنیاوی مصالح میں شریعت کے مطابق چلایا جائے- امام فخرالدین رازی (606ھ) نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں آیت “وأمرهم شورى بينهم” (الشوریٰ: 38) کی تفسیر میں فرمایا کہ شوری اسلامی سیاست کا لازمی اصول ہے، کیونکہ اجتماعی امور میں مشاورت ترک کرنا ظلم کا باعث بنتا ہے۔ ابن رشد (595ھ) نے اپنی کتاب بدایة المجتهد اور فصل المقال میں لکھا کہ شریعت عقل اور وحی کا امتزاج ہے، اور حکمران کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی احکام کے ساتھ عقلی تدبیر کو بھی شامل کرے تاکہ عدل قائم ہو۔ ابن خلدون (808ھ) نے اپنی مشہور کتاب المقدمہ میں سیاست کے بارے میں فرمایا: “الخلافة نيابة عن صاحب الشرع في حراسة الدين وسياسة الدنيا به” یعنی خلافت شریعت کے مالک (اللہ و رسول ﷺ) کی نیابت ہے تاکہ دین محفوظ رہے اور دنیا شریعت کے ذریعے منظم ہو۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ جب حکومت عدل سے ہٹتی ہے تو اس کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہیں اور زوال آتا ہے۔ ابن عربی (638ھ) کے نزدیک حکمران کا مقام روحانی ذمہ داری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے الفتوحات المکیة میں لکھا کہ حقیقی حکمران وہ ہے جو “ظل اللہ فی الارض” (زمین پر اللہ کا سایہ) ہو، یعنی عدل اور رحمت کا مظہر ہو۔ خلافتِ راشدہ کو تمام علما اسلامی طرزِ حکومت کی مثالی شکل مانتے ہیں، جہاں خلفاء کا انتخاب عوامی رائے اور شوری سے ہوتا، حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے، بیت المال عوامی فلاح پر خرچ ہوتا اور عدل و مساوات سب کے لیے یکساں تھی۔ اس طرح علما کے نزدیک اسلام کا نظام نہ بادشاہت ہے نہ مغربی جمہوریت، بلکہ ایک خلافتی نظام ہے جو اللہ کی حاکمیت، شریعت کے نفاذ، مشاورت اور انصاف پر مبنی ہے-
الطاف چودھری
